.....LEARING
and LIVING THE DEEN and FINDING THE BALANCE.....


Review deen-dunya.blogspot.com on alexa.com

Saturday, August 14, 2010

The Partition Shamshad Ilahi Ansari Shams جشن ء آ ز ا د ی تقسیم کی 63 و یں بر سی پر






شمشا د الہی انصاری شمس کی نظم


کب جانو گے تم کب سمجھو گے







تم پیچھے چھوڑ گئے تھے



میرے بلکھتے ، معصوم والد کو
گھٹنوں -- گھٹنوں خون میں لتھپتھ
آ دھی جلی لاشوں اور دھد کتے گھروں کے درمیان
سے بھری ان گلیوں میں د م گھو ٹو ں د ھو یں
جسے د و ڈ کر پار کرنے میں وہ ا ہل نہ تھا.
نفرت اور ہیوانیت کے گھنے کہا سے میں
میرے والد نے اپنے بھائیوں ، لواحقین کے
ڈ ر ے سہمےچہرے غا ئب ہوتے دیکھے تھے.

غلیظ نعر و ں کے تا جرو ں نے
تخر یب کے تلا تم پر بیٹھا کر
جو خواب تمہاری آنکھوں میں بھر دیئے تھے
تمہیں انہیں جینا تھا ، لیکن
تم پیچھے چھوڑ گئے تھے
میرے بلکھتے ، معصوم والد کو
اس کے آدھے خاندان کے ساتھ...


میں پو چھتا ہوں تم سے
آخر کیا حاصل ہوا تمہیں
ان مبینہ نئے نعر و ں سے
نیا ملک ، نئ ر اہ اور نئی تاریخ سے
جو شر و ع ہوتی قا سم ، غز نی ، لنگ سے
اور مشرف تک جا تی.
گز شتہ نصف صدی میں کیا ہوا حاصل.
جنگ ، چند د ھما کے اور بامیان میں بدھ کا قتل.

تم کب جانو گے
کہ تقسیم صرف ز مین کا ہی ممکن ہے
وراثت ، ثقافت ، تاریخ کا نہیں.
توپوں کے گولوں سے مجسمہ کشی ہے ممکن
خیال اور وجود کشی نہیں.

تم کب جانو گے
کہ تمہارے گہرے سبز رنگ عکس نعر و ں کی
بر عکس گو نج میرے گھر میں زعفر ا ن گرم کرتی ہے.
جو گھر خاندان تم بیسہارا ، مجبو ر ، مخد وش
پیچھے چھوڑ کر گئے تھے
وہاں بھی کبھی کبھی ترشول کا خوف ستا تا ہے.
تمہارے گہرے سبز رنگ نے
زعفر ا ن کا رنگ بھی گہرا کر دیا ہے.


تم کب جانو گے
کہ وہ تاریخی توانائی
جو تقسیم کی با ئث بنی
وہ نئے بھارت کی سنجیو نی بن سکتی تھی
جو لوگ باہم قتل کر رہے تھے
وہ بنجر زمین کو سبز ہ بنا سکتے تھے
کل -- کارخانے چلا سکتے تھے
تعمیر کے بلند کو ہ پر چڑھ کر
دنیا کو بتا سکتے تھے کہ یہ ہے
ایک ترقی یا فتہ ، جمہوری ، مہذب ، بلند ہندوستان



تم کب جانو گے
کہ تمہارے بغیر یہ کام اب تک نا مکمل ہے
خلا میں لٹکا ہے کیونکہ
تم پیچھے چھوڑ گئے تھے
میرے بلکھتے معصوم والد کو


تم کب جانو گے
کہ میرے پس ماند ہ والد کو سہارا دینے والے ہاتھ
ہر شام کرشن کی عبا د ت میں مربوط ہو تے تھے
گنگا کا جمنا سے ر بط کا راز
بدھ کی خمو شی اور مہا ویر کی ر حم د لی
کبیر کے دو ہے ، خسر و کی ر با ئیا ں
مندر میں پو جا اور مسجد و ں میں عبادت
تم کس طرح سمجھو گے ؟
کیونکہ تم نے اس خطے کی تمام عقل کے برعکس
سرہد یں ز ہن میں بھی بنائی تھیں


تم کب جانو گے
کہ مذہب کے نام پر تعمیر یہ شیطا ن
اب خود تم سے آزاد ہو چکا ہے
وہ ہر پل تمہارے وجود کو ختم کر رہا ہے کیونکہ
تم پیچھے چھوڑ گئے تھے
میرے بلکھتے معصوم والد کو


تم کب جانو گے
کہ ماضی لا محد و د ، تا بند ہ اور غیر منقسم ہے
وہ سچ کی طر ح مقدس ہے
کب تک جٹھلا و گے اسے
کتنی نسلیں اور بھو گیگیں
تمہارے تاریخ کے بد فعل کو
کیوں نہیں بتاتے انہیں
کہ ہم سب ایک ہی تھے
ہمارے ہی ہاتھوں نے بوئ تھی پہلی فصل
مہن جوداڈو میں
سند ھو تہذیب کے عا دم مکا ن
ہم نے ہی بنا ئے تھے
ہم نے ہی رچی تھی ویدوں

کی رچا ئیں
ہم سب تھے مہا بھا رت
ہمارا ہی تھا رام ، کرشن ، بدھ ، مہا ویر
ہم نے ہی قبول کیا تھا محمد کا پیغام
ہم نے ہی بنائی تھی پیروں کی درگاہیں



تم کب جانو گے
کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے
جھوٹ کو نہیں ملتی تا بند گی
تمہارے ہر گھر میں رفیع کی آواز
مینا ، مدھوبالا ، ایشوریہ کا حسن
کرشن کی بانسر ی پر لہر ا تی دلوں کی د ھڑکنيں
ہر نوجوان میں چھپا دلیپ ، امت ، شاہ رخ کا چہرہ
تمہارے جھوٹ سے بڑا سچ
اور کیا ہو سکتا ہے


تم کب مانو گے
کہ تم سب کچھ جانتے ہو
سیاسی فریب کی ریت میں
دبی آنکھیں ، دماغ ، دل اور وجود
سچ کی آ ند ھی میں
برلن کی دیوار کی طر ح
کبھی بھی ڈ ھہ سکتا ہے.
جھوٹ کی چادر میں لپٹے بم ، بند و قیں اور بارود
محو فر بیب کی دیواریں ، سر حدیں ، ا فو اج
مخنث بناسکتی ہیں
لاکھوں بے گنا ہ لوگوں کا بہا خون
کبھی بھی مانگ سکتا ہے حساب
ا جڑ یں گھر و ں کی بد د عا ئیں
اپنا اثر دکھا سکتی ہیں ، کیونکہ
تم پیچھے چھوڑ گئے تھے
میرے بلکھتے معصوم والد کو..

تم کب جانو گے

تم کب جانو گے
کہ ہم بھی خطاوا ر ہیں
ہم نے بھی چلی ہیں سیاسی چا لیں
ہم نے بھی توڈی ہیں قسمیں
ہمیں بھی بتانی ہیں گاندھی کی جوانی کی بھولیں
سمجھنی ہے جنا ح کی نا دانی
نوسکھیا کانگریس کی جھوٹی مر د ا نگی
انگریزوں کی گھو ڑ وں کی چال ، شہ - مات کا کھیل
فیض ، فراز ، جوش ، جالب کا درد
اور ظفر کے بکھرے خواب ، کیونکہ
تم پیچھے چھوڑ گئے تھے
میرے بلکھتے معصوم والد کو..


تم کب جانو گے
کہ میرے والد کئی برس ہوئے گزر گئے ہیں
کھلی آنکھوں میں خواب اور آس لئے
کہ تم لوٹ آ و گے
ان کا وہ جملہ مجھے بھی کچو ٹتا ہے
"
جو چھوڑ کر گیا ہے ، اسے ہی لوٹنا ہوگا"
میں نے جب سے ہوش سمبھا لا ہے
میں بھی یہی دہرا تا ہوں
میرے بچے بھی اب ہو گئے ہیں جوان
وہ بھی سوال کرتے ہیں
نئی روشنی ، نئی طرز ، نئی سمجھ کے ساتھ
تمہارے یہاں بھی یہی ہے حال
آج نہیں تو کل یہ شور اور تیز ہوگا
جوان نسلیں جائز سوال پوچھیگیں
ہزاروں برس کے سا جھے چلھے؟
پچاس ساٹھ برس کی علیحد گی؟
تمہیں دینے ہوں گے جواب کیونکہ
تم پیچھے چھوڑ گئے تھے
میرے بلکھتے معصوم والد کو..



تم کب جانو گے
کہ پیچھے چھٹے ، جلے ، بکھرے ، ٹو ٹےگھر
پھر آباد ہو گئے ہیں
وہاں پھر سے بس گئے ہیں
بچپن کی کلکاریاں ،
جوانی کی رونق
اور ضعیفی

کی شا ن و شو کت
تمہارا پلنگ ، تمہاری کرسی
تمہاری کتابیں ، تمہارے خط
تمہاری گلیاں ، وہ چھت
اور آم جامن کے پیڑ
تمام کچھ قا یم ہیں منتظر ہیں
تمہیں واپس آنا ہوگا
تمہیں ہی لوٹنا ہوگا کیونکہ
تمہی تو چھوڈ کر گئے تھے
میرے بلکھتے معصوم والد کو..

ساٹھ برس قبل


ہند ی سے ا ر د و پیشکش شہر و ز



Courtesy Hamzabaan

3 comments:

shahroz said...

shukriya for posting this nice poem !

DR. ANWER JAMAL said...

Nice post .

Anonymous said...

Hi


Related Posts with Thumbnails